Jhadav and ICJ Decision of July 17, 2019 CE
کلبھوشن جھادو اور عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ (بتاریخ ۱۷جولائی ۲۰۱۹ء)
(https://www.icj-cij.org/files/case-related/168/168-20190717-SUM-01-00-EN.pdf)
کلبھوشن سدھیر جھادو (پیدائش: ۱۹۷۰ء)ایک بھارتی شہری ہے جس کو حکومت پاکستانی نے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر کے سزائے موت سنائی۔ بھارت اپنے اس شہری کا کیس عالمی عدالت انصاف میں لے گیا جہاں سماعت کے بعد بالآخر ۷۱ جولائی ۲۰۱۹ء کو ICJکے منصفین نے جھادو کے متعلق اپنا فیصلہ سنایا جو کہ مندربالا ویب لنک پر جا کر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ مختصر فیصلہ ۲۲ صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی مزید تلخیص اس پریس ریلیز میں موجود ہے جو عالمی عدالت انصاف نے ۷۱ جولائی کو ہی جاری کی۔ سب سے پہلے اس پریس ریلیز کا حال بتایا جا رہا ہے:
(https://www.icj-cij.org/files/case-related/168/168-20190717-PRE-01-00-EN.pdf)
۱۷ جولائی کو جھادو کیس کے متعلق عالمی عدالت انصاف کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں (جو کہ آفیشل نہیں ہے) عالمی عدالت انصاف نے پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود اس تنازع کا فیصلہ سنایا۔ عالمی عدالت انصاف نے پاکستان کے خلاف فیصلہ دیا۔حکومت پاکستان جھادو کی قید اور مقدمہ کے معاملہ میں ویانا کنونشن کے چھتیسویں (۳۶ویں)آرٹیکل کی خلاف ورزی کی مرتکب قرار پائی۔ اس آٹیکل کی رو سے جھادو کا حق تھا کہ بھارتی قونصل خانہ کو اس تک رسائی مہیا کی جاتی۔
پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں دائر بھارت کی اس درخواست کو (کہ جھادو کا فیصلہ اس عدالت میں کیا جائے) ناقابل سماعت قرار دینے کی درخواست کی تھی۔ عالمی عدالت انصاف نے بھارت کی درخواست کو قابل سماعت قرار دیا۔مزید برآں جھادو کو ملنے والی سزائے موت پر نظرثانی تک اس کی سزائے موت معطل کی جاتی ہے۔
حکومت پاکستان نے دعویٰ کیا کہ ویاناکنونشن اس افراد پر لاگو نہیں ہوتا جن پر جاسوسی کا شبہ کیا جا رہا ہو۔ عالمی عدالت انصاف کی نظر میں ویاناکنونشن کا چھتیسواں (۳۶واں)آرٹیکل ان افراد پر بھی لاگو ہوتا ہے جو جاسوسی کے شبہ میں پردیس گرفتار ہوں۔پاکستان کا دوسرا دعویٰ یہ تھا کہ جاسوسی کے شبہ میں گرفتار غیرملکیوں پر ویانا کنونشن نہیں بلکہ عمومی بین الاقوامی قانون کا اطلاق ہوتا ہے جس میں متعلقہ حکومت کو اس بات کی اجازت ہے کہ اگر وہ چاہے تو مشتبہ جاسوس تک قونصل خانہ کو رسائی نہ دے۔ عالمی عدالت انصاف نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کا یہ دعویٰ درست نہیں اور مشتبہ جاسوس پر بھی ویانا کنونشن کا اطلاق ہوتا ہے۔پاکستان کا تیسرا دعویٰ یہ تھا کہ جھادو اور اس جیسے معاملات میں ویانا کنونشن کے بجائے بھارت اور پاکستان کے درمیان ۲۰۰۸ء میں طے پائے جانے والے قونصلیٹ کی رسائی کے معاہدہ کے قوانین کی پابندی لازم آتی ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے فیصلہ کیا کہ ۲۰۰۸ء کا معاہدہ کسی بھی طور ویانا کنونشن کے قوانین کی حرمت کو منسوخ نہیں کرتا بلکہ یہ معاہدہ ویانا کنونشن کی تہترویں (۷۳)شق کے دوسرے پیراگراف کی ہی تفصیل ہے۔ اس شق کی رو سے ویاناکنونشن کسی بھی ریاست کو کسی دوسری ریاست کے ساتھ ویاناکنونشن کی روشنی میں بین الاقوامی معاہدات کرنے سے نہیں باز رکھتا۔
علاوہ ازیں پاکستان کے بھارت کے خلاف الزامات کہ بھارت نے جھادو کے متعلق تحقیقات میں حکومت پاکستان کا ساتھ نہیں دیا، اس بناء پر درست معلوم نہیں ہوتے کیونکہ ویانا کنونشن کی رو سے کسی بھی غیر ملکی شہری کی گرفتاری کی اطلاع اس گرفتارشدہ شہری کی حکومت کو ”بغیر تاخیر کے“ کرنی چاہئے جو کہ پاکستانی حکومت نے جھادو کی گرفتاری کے تین ہفتے بعد کی۔ چنانچہ حکومت پاکستان کا یہ دعویٰ کہ بھارتی سرکار کے جھادو تک قونصل خانہ کی رسائی کا مطالبہ غیرقانونی ہے، غلط ہے۔ حکومت پاکستان ویاناکنونشن پر عمل درآمد کو دوسری ریاست کی پابندی قانون سے مشروط نہیں کر سکتی۔
عالمی عدالت انصاف نے اعلان کیا کہ جھادو کے معاملہ کی مزید چھان بین اور اس کی سزا پر مفید نظرثانی مختلف طریق سے کی جا سکتی ہے۔ اب یہ پاکستان کی مرضی ہے کہ کون سا طریقہ اختیار کرنا بہتر خیال کرتا ہے۔لیکن اس فیصلہ پر مفیدنظرثانی تک جھادو کی سزائے موت معطل رہے گی۔
حقیقی مختصر فیصلہ کی تلخیص:
۸ مئی ۲۰۱۷ء کو بھارتی سرکار نے عالمی عدالت انصاف میں پاکستانی حکومت پر جھادو کے معاملہ میں ویانا کنونشن کے چھتیسویں (۳۶ویں) آرٹیکل کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا جس کے بعد ۱۸مئی ۲۰۱۷ء کو عالمی عدالت انصاف نے اس قضیہ کے حتمی فیصلہ تک پاکستان کو جھادو کو پھانسی دینے سے باز رہنے کا حکم دیا۔
عالمی عدالت انصاف نے جھادو کے کیس کا مختصر جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ۳ مارچ ۲۰۱۶ء کو پاکستان نے ایک بھارتی شہری کلبھوشن جھادو کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا۔ پاکستان کا دعویٰ تھا کہ جھادو کو بلوچستان میں گرفتار کیا گیا جبکہ بھارت کے مطابق کلبھوشن کو ایران میں اغوا کر کے پاکستان لے جایا گیا۔ پاکستان نے کہا کہ گرفتاری کے وقت جھادو کے پاس ”حسین مبارک پٹیل“کے نام سے ایک جعلی پاسپورٹ بھی موجود تھا۔
۲۵ مارچ ۲۰۱۶ء کو پاکستان نے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا اور اسے جھادو کی ایک ویڈیو دکھائی جس میں جھادو نے بھارتی سرکاری ایجنسی ”را“ کا ایجنٹ ہونے کا اعتراف کیا۔ اسی روز جھادو کا معاملہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے سامنے بھی پیش کیا گیا۔بھارت نے جھادو کو اپنا شہری تسلیم کیا۔
مقدمہ کی تفصیلات کی رو سے پاکستانی حکومت نے جھادو پر مقدمہ چلایا۔ جب بھارتی سرکار نے جھادو تک قونصل خانہ کی رسائی طلب کی تو پاکستان نے اس رسائی کو بھارت کی جھادو کے متعلق تحقیقات میں معاونت کے ساتھ مشروط کیا۔ بھارتی سرکار نے دعویٰ کیا کہ قونصل خانہ کی جھادو تک رسائی سے قبل کسی بھی قسم کی معانت کا وعدہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بعد پاکستانی ملٹری کورٹ نے جھادو کو سزائے موت سنا دی۔
عالمی عدالت انصاف نے جہاں پاکستان کو ویاناکنونشن کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا وہیں بھارت کے ان دو مطالبات کو رد کر دیا کہ جھادو کی سزائے موت کا ملاً منسوخ کر کے اسے واپس بھارت بھجوایا جائے۔
ان تمام proceedingsکے دوران پندرہ منصفین نے پاکستان کے خلاف فیصلہ دیا جبکہ ایڈہاک جج جیلانی نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا۔
Comments
Post a Comment